مردوں کی جانب سے عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے خواتین مردوں کے حوالے سے چاہے شاہراہ عام پر ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ پر ہراساں کی جاتی رہتی ہیں ۔ اکثر اوقات ایسے واقعات کے بعد خوفزدہ ہونے کے سبب زیادہ تر خواتین یا تو راستہ تبدیل کر لیتی ہیں یا پھر جگہ بدل دیتی ہیں ۔
خواتین کا یہ عمل مردوں کو اور زیادہ شہہ دینے کا سبب بنتا ہے اور وہ زیادہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے نام نہاد مردانہ پن کی نہ صرف نمائش کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات شرم و حیا سے عاری حرکات بھی کر گزرتے ہیں کیوں کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اس عمل کی شکایت کوئی بھی نہیں کر پاۓ گا ۔
https://www.facebook.com/penduproductions/videos/1069413673214276/
مگر اب وقت بدلتا جا رہا ہے پہلے مردوں کے جس عمل پر خواتین خاموش ہو جاتی تھیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جیسا کہ گزشتہ دن پنجاب یونی ورسٹی میں ایسی ہی صورتحال سامنے آئی جب اس کے گیٹ پندرہ کے سامنے ایک رکشے والا ایک ایسے مقام پر کھڑا ہو گیا جہاں بظاہر تو وہ آنے والی سواریوں کا انتظار کر رہا تھا
مگر حقیقت میں اس نے اپنے پوشیدہ اعضا کو شلوار سے نکال کر باہر کر رکھا تھا اور جب بھی اسے کوئی طالبہ گزرتے ہوۓ نظر آتی وہ اپنی قمیض اٹھا کر ان لڑکیوں کو دعوت نظارہ دے رہا تھا ۔ ایسے واقعات ان تمام خواتین کے لیۓ جو کسی بھی کام سے گھر سے باہر نکلتی ہیں انوکھے نہیں ہیں
مگر اس بار کچھ طالبات نے ایسے واقعات سے خوفزدہ ہونے کے بجاۓ ان کی ویڈیو بنا لی جو کہ سوشل میڈیا پر شئیر کر دی گئی یہ ویڈیو دیکھتے دیکھتے وائرل ہو گئی اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی بہت ساری اور خواتین نے بھی اس قسم کے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سوشل میڈیا پر شئیر کرنے شروع کر دیۓ جس میں ایک وین کی طالبات نے ایک ایسے موٹر سائیکل سوار کی ویڈیو بھی شئیر کی جس نے موٹر سائکل پر سے اپنے جنسی اعضا کی نمائش کرتے دیکھا جا سکتا تھا
یہ سلسلہ خالی یہیں تک محدود نہیں بلکہ حالیہ دنوں میں اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کی خواتین نے بھی اپنے اعلی عہدیداروں کو ایک درخواست پیش کی جبس میں انہوں نے اپنے ساتھی افسران کے حوالے سے یہ الزام لگایا کہ ان کے ساتھی افسران نہ صرف ان کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف کاموں کے لیۓ جنسی قربت کے تقاضے بھی کرتے ہیں
ایسے واقعات ان افراد کی جنسی طور پر فرسٹریشن کا اظہار کرتے ہیں مگر ایسے واقعات معاشرے میں خواتین کے ساتھ مردوں کی اس سوچ کے بھی عکاس ہیں کہ ان کے نزدیک گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت بکاؤ اور عزت سے عاری ہوتی ہے اس سوچ کا خاتمہ کرنے کے لیۓ یہ ضروری ہے کہ ہر انسان یہ سوچے کہ اگر وہ کسی اور کی بہن اور بیٹی کے ساتھ جو کر رہا ہے کل کو اسی قسم کی حرکت کا سامنا اس کی بہن بیٹی کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے
