نیب کی جانب سے لطیف آباد میں کاروائی کی گئی جس کے نتیجے میں سابق پولیس کانسٹبل محمد یوسف اور اس کے بیٹے عارف یوسف جو کہ پولیس کانسٹبل کے طور پر فرائض انجام دے رہا تھا کو گرفتار کیا گیا ۔ ان کے خلاف انکوائری کے نتیجے میں جو ہوشربا انکشافات کا سلسلہ جاری ہے جنہوں نے سب کو چونکا دیا ہے ۔
ابتدائی انکوائری کے نتیجے میں جو معلومات نیب کے نمائندے کی جانب سے سامنے آئی ہیں وہ سب کی آنکھیں کھولنے کے لۓ کافی ہیں ۔ نیب کی اطلاعات کے مطابق جو رقم ان پولیس کانسٹبل سے برآمد کی گئی جس میں 20 ملین ایرانی ریال، 745 سعودی ریال، 1۔2 ملین کے پرائز بانڈ اور تقریبا 20 ملین کے زیورات ہیں جو ان کے گھر کی تلاشی کے نتیجے میں برآمد ہوۓ ۔
متعلقہ عملے کو تلاشی کے نتیجے میں ان باپ بیٹے کے نام کے 20 بنک اکاونٹ کی ڈپازٹ سلپس بھی ملیں جس میں روان سال کے دوران 20 ملین سے لے کر 70 ملین تک کی رقوم جمع کروائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد بے نام بنک اکاونٹس کا بھی انکشاف کیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ ان کے نام موجود جائیدادوں کی بھی تفصیلات جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق ایک شادی ہال جس کی مالیت 30 ملین ہے پلاٹوں کی سیل ڈیڈ جن کی مالیت 8۔2 ملین ہے ۔ بحریہ ٹاؤن حیدرآباد میں دس پلاٹ، پانچ اپارٹمنٹ، بحریہ ٹاون ہی میں چھ گھر اس کے علاوہ کراچی بحریہ ٹاؤن کے ایک سو بیس پلاٹوں کے کاغذات شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ ان کے قبضے سے 3۔14 ملین کی دس گاڑیاں بھی برآمد کی گئیں ۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق محمد یوسف جو پہلے ہی کرپشن کے الزامات کے سبب معطل ہے کئی سرکاری حکومتی ارکان کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتا ہے ۔ اور ان کے لئے پارکنگ کے ٹھیکے اور دیگر کئی اقسام کے کاروبار اپنے نام سے سنبھالتا ہے ۔
ان افراد کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے انکشافات کے بعد قوم منتظر ہے کہ شاید نیب ان لوگوں کے بھی نام سامنے لاۓ جن کے فرنٹ مین کے طور پر یہ لوگ کام کر رہے تھے کیونکہ بہر حال اصل مجرم تو وہی ہیں جنہوں نے ناجائز ذرائع سے مال کمانے کے بعد اس کو ان لوگوں کے نام پر چھپایا ۔
ان چھوٹی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے سے نیب کرپشن کا خاتمہ نہیں کر سکتی اس کے خاتمے کے لۓ ضروری ہے کہ براہ راست ان لوگوں کو پکڑا جاۓ جو اس قسم کے جرائم میں ملوث ہیں اور بغیر پلی بارگین کئے ان کو قرار واقعی سزا دلوائی جاۓ ۔
