سلمان حیدر فاطمہ جناح یونی ورسٹی اسلام آباد کا پروفیسر سات جنوری 2017 سے غائب ہے ۔اس کی بازیابی کے لۓ حکومت کوشش کر رہی ہے مگر اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ صرف پیشہ کے اعتبار سے استاد ہی نہ تھا بلکہ ایک درد مند دل رکھنے والا شاعر بھی تھا۔ اس کی گمشدگی کی وجوہات میں ایک نظم کا ذکر خاص طور پر کیا جا رہا ہے جس کا عنوان تھا میں بھی کافر تو بھی کافر
میں بھی کافر تُو بھی کافر
پھولوں کی خوشبو بھی کافر
لفظوں کا جادُو بھی کافر
یہ بھی کافر وہ بھی کافر
فیض بھی اور منٹو بھی کافر
نُور جہاں کا گانا کافر
مکڈونلڈز کا کھانا کافر
برگر کافر کوک بھی کافر
ہنسنا بدعت جوک بھی کافر
طبلہ کافر ڈھول بھی کافر
پیار بھرے دو بول بھی کافر
سُر بھی کافر تال بھی کافر
بھنگڑا، اتن، دھمال بھی کافر
دھادرا،ٹھمری،بھیرویں کافر
کافی اور خیال بھی کافر
وارث شاہ کی ہیر بھی کافر
چاہت کی زنجیر بھی کافر
زِندہ مُردہ پیر بھی کافر
نذر نیاز کی کھیر بھی کافر
بیٹے کا بستہ بھی کافر
بیٹی کی گُڑیا بھی کافر
ہنسنا رونا کُفر کا سودا
غم کافر خوشیاں بھی کافر
جینز بھی اور گٹار بھی کافر
ٹخنوں سے نیچے باندھو تو
اپنی یہ شلوار بھی کافر
فن بھی اور فنکار بھی کافر
جو میری دھمکی نہ چھاپیں
وہ سارے اخبار بھی کافر
یونیورسٹی کے اندر کافر
ڈارون بھائی کا بندر کافر
فرائڈ پڑھانے والے کافر
مارکس کے سب متوالے کافر
میلے ٹھیلے کُفر کا دھندہ
گانے باجے سارے پھندہ
مندر میں تو بُت ہوتا ہے
مسجد کا بھی حال بُرا ہے
کُچھ مسجد کے باہر کافر
کُچھ مسجد کے اندر کافر
مُسلم مُلک میں اکثر کافر
کافر کافر میں بھی کافر
کافر کافر تُو بھی کافر
اس نظم سے ان کی سوچ اور فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ ملک جو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا اسی ملک میں کبھی تو ہم لوگوں کو اس لۓ مار دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ مسلمان کہلاۓ جانے کے قابل نہیں اور کبھی کسی کو اس لۓ غائب کر دیا جاتا ہے کہ وہ جو بات کرتا ہے وہ ہمیں پسند نہیں آتی۔
کیا عدم برداشت کا یہ رویہ صحیح ہے؟ کیا ہم معاشرے کے ٹھیکیدار ہیں جو یہ فیصلہ کریں کہ کس کو زندہ رہنے کا حق ہے کس کو نہیں؟ کیا ہمارا یہ رویہ اسلامی تعلیمات کے برعکس نہیں ہے؟
سلمان حیدر پہلا استاد تو نہیں جس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے، کیا ہمیں صرف ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو خالی کورس کی کتابیں رٹوادیں ؟شعور اجاگر کرنے والے استاد ہماری برداشت سے باہر ہیں ؟کیا مسلک کی حیثیت ہمارے ایمان سے زیادہ ہے ؟آخر کب تک ہم مسلک کے نام پر اس پاک سرزمیں کو تقسیم کرتے رہیں گے ؟
کیا پاکستان کا آئین ہر مذہب ،ہر مسلک کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے ؟ کیا اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسلک کے لوگ اپنے تحفظ کے لۓ بیرونی طاقتوں کے ہاتھ آلہ کار بن جائیں؟
سلمان حیدر کی بازیابی کے لۓ مسلک سے بالاتر ہو کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے انسانیت کے پرچار کی ضرورت ہے ۔آج اگر ایک گھر سے سلمان حیدر غائب ہوا اگر ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل وہ گھر ہمارا بھی ہو سکتا ہے ۔پھر کون آواز اٹھاۓ گا؟
خوف اور ڈر کی اس فضا کو ہم ہی ختم کر سکتے ہیں صرف اپنے ضمیر کے مطابق غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو پودا آج ہم لگا رہے ہیں آنے والی نسلیں اسی کا پھل کھائيں گی ۔
