انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں ۔ مگر بعض اوقات اس طرح جڑے ہونے کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ کاش ہم جنگلوں میں غاروں ہی میں رہتے تو بہتر تھا ۔ ہمارے کھانے پینے پہننے اوڑھنے غرض ہر چیز کے ساتھ یہ جڑا ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔
یہ مت پہنو، لوگ کیا کہیں گے
ہمارے معاشرے میں اکثر خاندانوں میں جینز کا پہننا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ۔اس کے مقابلے میں انتہائی پتلے کپڑے کی شلوار پہن لیں گے مگر جینز نہیں پہنیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ اچھی سی تصویر لو بھائی، ورنہ لوگ کیا کہیں گے
یونیورسٹی میں داخلہ مت لو، لوگ کیا کہیں گے
لڑکیوں کے لۓ تعلیم کے مواقع پہلے ہی کم ہوتے ہیں اور اگر کہیں وہ اپنی ذہانت کے بل پر اس قابل ہو جائیں کہ ان کو یونی ورسٹی میں داخلہ مل رہا ہو تو وہ داخلہ اس لۓ نہیں دلوایا جاتا ہے کہ وہاں ساتھ میں لڑکے بھی پڑھتے ہیں ہم داخلہ نہیں دلواتے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔
سڑک پر کھڑے ہو کر کچھ مت کھاؤ ، لوگ کیا کہیں گے
چاٹ کا جو مزہ سڑک پر چاٹ والے کی ریڑھی پر کھڑے ہو کر کھانے کا آتا ہے وہ مزہ ائیر کنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر کھانے میں کہاں ،مگر اس مزے پر بھی پابندی کہ لوگ کیا کہتے ہیں ۔
اس خاندان میں رشتہ مت کرو ،لوگ کیا کہیں گے
رشتہ کے لۓ لڑکی یا لڑکے کو دیکھنے کے بجاۓ ہم سب یہ دیکھتے ہیں کہ اس رشتے کے نتیجے میں لوگ کیا کہتے ہیں اسی سبب اکثر لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں ہم اپنی زندگیاں برباد کر ڈالتے ہیں ۔
شادی میں اتنا خرچہ کرو ورنہ لوگ کیا کہیں گے
لوگوں کا عمل دخل صرف شادی کے خاندان کے چناؤ ہی میں نہیں ہوتا بلکہ شادی کرنی کیسے ہے وہ بھی لوگوں ہی کی مرہون منت ہوتا ہے ۔کونسے فنکشن کرنے ہیں کون سے نہیں ،کہاں کرنے ہیں کہاں نہیں ،کھانے میں کیا کیا ہونا چاہیۓ اس سب کا فیصلہ ہم خود نہیں کرتے بلکہ لوگ ہی کرتے ہیں ۔
جنازہ شان و شوکت سے اٹھنا چاہۓ ورنہ لوگ کیا کہیں گے
مرنا انسانی زندگی کا وہ آخری عمل ہوتا ہے جو کہ انسان کا براہ راست اللہ سے معاملہ ہوتا ہے مگر ہم نے اس معاملے کو بھی لوگوں کا محتاج بنا دیا ہے ۔مرنے والے پر زور سے روۓ تو لوگ کیا کہیں گے ،آہستہ روۓ تو بھی یہ فکر کہ لوگ کیا کہیں گے ۔کھانا بنا لیا تو یہ ڈر کہ لوگ کیا کہیں گے اور نہیں بنایا تو یہ فکر کہ لوگ کیا کہیں گے۔
انسان کا انسان کے ساتھ تعلق زندگی کو آسان کرنے کے لۓ ہونا چاہیۓ ،جہاں یہ تعلق بوجھ بننے لگے وہیں اس کا ٹوٹ جانا بہتر ہے ۔کوشش کریں کہ اپنی ذات کو دوسروں کے لۓ آسانیاں بانٹنے کا ذریعہ بنائیں ۔ دوسروں کی زندگیوں کو ،عذاب مت بنائیں ۔
پاکستان سپر لیگ کے دیوانوں کو”تیار ہیں” سنتے ہی علی ظفر کی یاد ستانے لگی
