بچہ اللہ کی جانب سے اگر انعام ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ ماں باپ کے لۓ ایک امتحان ایک ذمہ داری بھی ہوتا ہے ۔ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر دنیا کی ہر نعمت ،سکھ اور آرام اپنے بچے کو دے مگر یہ نہیں بھولنا چاہۓ کہ یہ بچہ درحقیقت اس کے پاس خدا اور معاشرے کی جانب سے ایک امانت کے طور پر ہوتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کر کے اس نے اس امانت کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔
بچہ کی تربیت ویسے تو پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے مگر شخصیت کی بنیادی تربیت دس سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کہ اس کی عادتیں پختگی کی جانب جا رہی ہوتی ہیں لہزا اس وقت یاد کروائی گئی عادات ہی درحقیقت وہ سب سے اہم تحفہ ہوتی ہیں جو کوئی بھی ماں باپ اپنی اولاد کو دیتے ہیں۔
بچے میں اپنی ذات کا شعور بیدار کریں
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ اگر بچے کو اور اس کی شخصیت کو اہمیت دیں گے تو اس کو محسوس ہو گا کہ اس کی بھی کوئی شخصیت ہے اس کی بات کو توجہ اور نرمی سے سنیں اور اس کی راۓ کو اہمیت دیں ۔ اگر اس کے لۓ کوئی چیز نقصان کا سبب بن سکتی ہے تو اس کو بزور طاقت کے منوانے کے بجاۓ دلیل سے سمجھائیں
بچے کو اپنا خیال خود رکھنا سمجھائیں
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ بچہ آپ کی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کو اس بات کی تربیت دیں کہ وہ اپنا دفاع خود کر سکے اس کو اس بات کی تعلیم دیں کہ وہ اپنا خیال کس طرح رکھ سکتا ہے۔
اس کو اگر مکمل جنسی تعلیم اگر نہ بھی دیں تو اتنا ضرور بتائیں کہ وہ غلط اور صحیح میں فرق محسوس کو سکے اور اگر کچھ غلط ہو تو آپ کو بتا سکے
بچے کو راستوں کا شعور دیں
اپنے ساتھ باہر لے جاتے ہوۓ یہ ایک ضروری امر ہے کہ بچے کو ساتھ ساتھ ان راستوں کی شناخت ضرور کروائیں ۔ اپنے گھر کا ایڈریس ،اہم ٹیلی فون نمبر پوری توجہ کے ساتھ بچہ کو یاد کروائیں اور وقتا فوقتا اس کو دہرا کر اس امر کو یقینی بنائيں کہ اس کو یہ سب یاد ہیں یا نہیں
احساس ذمہ داری پیدا کریں
دس سال کا بچہ نہ صرف اپنے کام خود کر سکتا ہے بلکہ اس کے ذمہ گھر کے چھوٹے موٹے کام روزانہ کی بنیاد پر ضرور لگائیں جیسے اپنے لباس کا خیال رکھنا، اپنے کمرے کی صفائی ،کچن کے برتنوں کی صفائی وغیرہ ان کاموں کی نگرانی بھلے آپ خود کریں مگر جب آپ یہ ذمہ داری روزانہ کی بنیاد پر بچے پر لگائیں گے تو اس سے یہ فرق پڑے گا کہ آنے والے وقت میں اس میں احساس ذمہ داری پیدا ہو گا جو آنے والے وقت میں اس کے کام آئے گا
پیسوں کی شناخت کروائیں

Source: wow Reads
اکثر ماں باپ کے منہ سے یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمارا بچہ تو اتنا سادہ ہے کہ اب تک وہ پچاس اور پانچ سو کے نوٹ میں فرق نہیں جانتا مگر یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔
چھوٹی موٹی خریداری کی ذمہ داری اس کے اوپر لازمی ڈالیں کہ وہ اس طرح پیسوں کی شناخت کر سکیں کیونکہ آنے والے وقت میں لازمی طور اس کا استعمال ان کی زندگی کا حصہ بنے گا۔
