پاکستان کی سیاست میں ایک خاص اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ دنیا کے کسی اور علاقے کی سیاست میں دیکھنے میں نہیں آتا ہے یہ اصطلاح خاص طور پر ان لوگوں کے لیۓ استعمال کی جاتی ہے جو کہ وقتی مفادات کے حصول کے لیۓ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں ایسے لوگوں کو عرف عام میں لوٹا کہا جاتا ہے
جیسے جیسے الیکشن کے دن نزدیک آتے جاتے ہیں ویسے ویسے ملک کے سیاسی منظر نامے میں لوٹوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت نے بھی جب الیکشن کے قریب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو ان کے بہت سارے ناموں میں لوٹے کے نام کا بھی اضافہ ہو گیا
#PTICandidates2018 #MainNahiHaaronga pic.twitter.com/8NWYBdna4U
— Aamir Liaquat Husain (@AamirLiaquat) June 20, 2018
ڈاکٹر عامر لیاقت اگرچہ بارہا اس بات کا اظہار کر چکےہیں کہ ان کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت صرف اور صرف ملک کے وسیع تر مفاد میں تھی مگر جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ نے ان کے قومی اسمبلی میں ٹکٹ دینے کی درخواست رد کی انہوں نے پریس کانفرنس کرنے کی دھمکی دے ڈالی ۔
مگر جس طرح روتے بچے کو کسی دوسرے کا لالی پوپ چھین کر دے کر چپ کروایا جاتا ہے پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ نے بھی ایسا ہی فیصلہ کر ڈالا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ سے ٹکٹ لے کر عامر لیاقت کو تھما دیا گیا
مگر جیسا کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر پاکستان تحریک انصاف میں سے ہر جانب سےاحتجاج کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں تو عامر لیاقت کے حلقے کے لوگوں نے بھی احتجاج کے لیۓ انوکھا طریقہ استعمال کیا اور انہوں نے جہاں جہاں عامر لیاقت نے اپنے ہورڈنگز اور پینا فلیکس لگا رکھے تھے وہاں وہاں عامر لیاقت ٹکٹ چور کے اسٹیکر چپکا دیۓ
علاقہ مکینوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے عامر لیاقت کو جعلی ڈگری ،جعلی مولوی ، ناکام سیاست دان اور منافق اینکر اب ایسے نہیں چلے گا کا بھی پیغام دے دیا ۔ حالات کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس حلقے کے عوام نے الیکشن سے قبل ہی الیکشن کا فیصلہ سنا دیا ہے
ان حالات کو دیکھ کر ایک سینئير تجزیہ نگار کی بات یاد آرہی ہے جس کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو باہر سے کسی سے خطرہ نہیں ہے اس کو سب سے زيادہ خطرہ اس کے اپنے اندر سے ہے
